۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
News ID: 388344
7 فروری 2024 - 07:00
حضرت ابوطالب علیہ السلام

حوزہ/ جناب ابوطالب علیہ السلام تنگ دستی کے باوجود مکہ مکرمہ کی ایک با وقار شخصیت تھے اور آپؑ کی سخاوت زباں زد خاص و عام تھی ، حاجیوں کی میزبانی اور انکی سقایت آپؑ ہی کے ذمہ تھی ۔ آپؑ عطر اور گیہوں کی تجارت کرتے تھے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | صدر اسلام کی ایک ایسی عظیم ذات جس کا کردار رہتی دنیا تک عالم اسلام کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے وہ جناب ابوطالب علیہ السلام کی ذات ہیں۔ یہ وہی عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اس وقت اسلام اور رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکہ مکرمہ میں کھل کر حمایت کی جب سب اسلام کے منکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کے دشمن تھے۔

حضرت ابوطالب علیہ السلام میلاد النبیؐ سے 35 برس قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ کے والد ماجد سید البطحاء ، ساقی الحجیج، حافر زمزم جناب عبدالمطلب علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت عمرو بن عائد مخزومی تھیں۔ کتب تاریخ میں آپؑ کے دو نام ‘‘ عبد مناف’’ اور ‘‘عمران’’ بیان ہوئے ہیں ۔ آپ ؑ کے بڑے فرزند کا نام طالب تھا اس لئے کنیت ابوطالب قرار پائی اور آپؑ نام سے زیادہ اپنی کنیت سے مشہور ہوئے۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (سورہ آل عمران، آیت 164)
یقنیا خدا نے صاحبانِ ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیٰہ کی تلاوت کرتا ہے انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ پہلے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

بے شک جناب ابو طالب علیہ السلام اس مومن گھرانے اور پاکیزہ نسل میں پیدا ہوئے جنکے ایمان کو مذکورہ آیت میں اللہ نے بیان کیا ہے۔ کیوں یہ وہی گھرانہ ہے جو خلیل خدا جناب ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہے اور انکی ذریت ہے۔ یہ ایسی پاکیزہ نسل ہے کہ کفر و شرک کی غلاضت نہ کبھی ان کے ایمان کو متاثر کر سکی اور نہ ہی شراب، زنا اور جوے جیسی گندگیاں انکے اعمال کے قریب آ سکیں ۔ کفر و الحاد و جاہلیت کے اس دور ظلمت میں یہ نسل دین حنیف ابراہیمؑ پر قائم توحید الہی سے اپنے وجود کو منور کئے تھی۔

جناب ابوطالب علیہ السلام تنگ دستی کے باوجود مکہ مکرمہ کی ایک با وقار شخصیت تھے اور آپؑ کی سخاوت زباں زد خاص و عام تھی ، حاجیوں کی میزبانی اور انکی سقایت آپؑ ہی کے ذمہ تھی ۔ آپؑ عطر اور گیہوں کی تجارت کرتے تھے۔

جب آپؑ کے والد ماجد جناب عبدالمطلب علیہ السلام کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو انہوں نے آپؑ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت، حمایت اور حفاظت کی وصیت کی۔ عظیم باپ کے عظیم فرزند نے والد کی وصیت پر تا حیات ایسا عمل کیا کہ ہمیشہ اپنے بیٹوں پر اپنے یتیم بھتیجے کو فوقیت دی۔ پہلے حضورؐ کو کھانا کھلاتے اس کے بعد اپنے بچوں کو، پہلے حضورؐ کو لباس دیتے اس کے بعد اپنے بچوں کو ، بہترین غذا اور لباس حضورؐ کو دیتے ، جب بچے کھانے کے لئے کہتے تو فرماتے صبر کرو پہلے میرا بیٹا محمدؐ آجائے اور میں اسے کھانا کھلا دوں تب تم کو دوں گا۔ المختصر ہر مرحلہ میں اپنے بچوں پر حضورؑ ہی کو ترجیح دیتے تھے۔

روایت میں ہے کہ جب حضورؐ کی عمر مبارک بارہ برس تھی تو جناب ابوطالب ؑ تجارت کے سلسلہ میں تجارتی قافلے کے ساتھ شام جارہے تھے تو حضورؐ نے انتہائی افسردگی سے آپ ؑ کے اونٹ کی لگام پکڑ کر فرمایا : ‘‘چچا!آپؑ مجھے کس کے حوالے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟’’ جناب ابوطالب ؑ نے فوراً ہی آپؑ کو اپنے اونٹ پر سوار کیا اور شام کی جانب روانہ ہو گئے۔ حسب معمول یہ تجارتی کاروان مقام ‘‘بصری’’ پر پہنچا جہاں ایک عیسائی راہب کا دیر تھا ۔ وہ راہب اس سے پہلے کبھی کسی قافلے کی جانب متوجہ نہیں ہوا لیکن اس بار اس نے قافلے والوں کی دعوت کی۔ کیوں کہ اس نے دیکھا کہ قافلے پر ایک بادل سایہ فگن ہے جس سے وہ سمجھ گیا کہ اس میں کوئی مقدس ہستی ضرور ہے جس کے سبب اللہ کی رحمت ان کے شامل حال ہے۔ جب قافلے والے راہب کے یہاں پہنچے تو اسے وہ بادل نہیں دکھا تو اس نے پوچھا کہ کیا کوئی تم میں سے میرے یہاں نہیں آیا ہے تو لوگوں نے کہا کہ ایک یتیم لڑکا ہماری سواریوں اور مال تجارت کے پاس ہے۔ راہب نے کہا کہ اسے بلاؤ۔ جب آپؑ اس کے یہاں پہنچے تو اس نے دیکھا کہ وہی ابر رحمت سایہ فگن ہے۔ کھانے کے بعد جب سارے لوگ متفرق ہو گئے تو راہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جناب ابوطالب علیہ السلام کو تنہائی میں بلایا اور اس نے حضورؐ کو مکہ کے نامور بتوں لات و عزیٰ کی قسم دیتے ہوئے پوچھا کہ آپؐ کو لات و عزیٰ کی قسم ! جو میں پوچھ رہا ہوں اس کا صحیح جواب دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےفرمایا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم نہ دو ، کیوں کہ ان دونوں سے زیادہ مجھے کسی سے نفرت نہیں ہے۔ تو راہب نے عرض کیا کہ آپؐ کو خدا کی قسم دیتا ہوں میرے سوالوں کا جواب دیں ۔ حضورؐ نے فرمایا: جو پوچھنا ہے پوچھیں۔ تو اس نے انجیل وغیرہ میں آخری نبیؐ کے سلسلہ میں جو کچھ پڑھا تھا اس کے مطابق سوال کیا جس کا حضورؐ نے قانع کنندہ جواب دیا۔ جس کے بعد اس نے دونوں شانوں کے درمیان میں موجود مہر نبوت کی زیارت کا مطالبہ کیا جسے حضور ؐ نے پورا کیا۔ پھر راہب نے جناب ابوطالبؑ سے پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ جناب ابوطالبؑ نے فرمایا: میرا بیٹا ہے۔ راہب نے کہا کہ نہیں یہ آپؑ کا بیٹا نہیں ہے تو جناب ابوطالب ؑ نے فرمایا: ہاں! یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔ اس نے کہا کہ ان کے والد کہاں ہیں؟ جناب ابوطالبؑ نے فرمایا: جب یہ شکم مادر میں تھے تب ہی ان کے والد کی وفات ہو گئی تھی۔ راہب نے جناب ابوطالب ؑ کی تصدیق کی اور کہا کہ ان کو مکہ واپس لے جائیں اور یہودیوں سے ان کی حفاظت کریں۔ ‘‘ خدا کی قسم! اگر یہودیوں نے انہیں پا لیا اور جو میں ان کے بارے میں جانتا ہوں وہ جان گئے تو ان سے دشمنی کریں گے اور قتل کر دیں گے۔ آپؑ کے بھتیجے کا مستقبل انتہائی روشن ہے لہذا انہیں جلد از جلد مکہ واپس لے جائیں۔’’ جناب ابوطالب علیہ السلام نے ایسے موقع پر نعت رسول مقبول ؐ میں اشعار کہے جن کے دوشعر ملاحظہ فرمائیں۔
ان ابن امنة النبی محمدا عندی یفوق منازل الاولاد لما تعلق بالزمام رحمته و العیس قد قلصن بالازواد
‘‘بے شک آمنہ ؑ کے فرزند نبی محمد ؐ مجھے میری اولاد سے زیادہ عزیز ہیں ۔ سفر کے ہنگام میرے اونٹ کی لگام انہوں نے ایسے پکڑی جیسے درخت کی بیل لپٹ جاتی ہے تو میں نے ان پر شفقت کی۔ ’’
ملاحظہ فرمائیں کہ اس شعر میں جناب ابوطالبؑ نے اس وقت آپؐ کے نبی ہونے کو بیان کیا ہے جب آپؑ نے اعلان نبوت بھی نہیں کیا تھا۔

جب حکم خدا سے حضورؑ نے اعلان اسلام کیا تو جناب ابوطالبؑ نے آپ کی مکمل حمایت کی ۔ دعوت ذو العشیرہ میں جب ابوجہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تقریر میں خلل ایجاد کرنا چاہا تو آپؑ نے اسے ڈانٹا اور حضورؐ سے فرمایا: ‘‘میرے سید و سردار! آپؐ کو جوکہنا ہو کہیں۔’’
اعلان اسلام کے بعد کفار و مشرکین کی دشمنیوں اور دھمکیوں کے سامنے آپؑ کی ذات حضورؐ کے لئے پناہ گاہ ہو گئی۔ آپؑ نے کھل کر حضورؐ کی حمایت کی اور اس سلسلہ میں نہ کسی دشمن کی دشمنی کی پرواہ کی اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کی۔ دشمن نے آپؑ کے سامنے تجویز رکھی کہ اگر آپؑ کو کسی کو بیٹا بنا کر پرورش کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو عمارہ بن ولید مخزومی کو اپنا بیٹا بنا لیں اور محمدؐ کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم انہیں قتل کر دیں ۔ جسے آپؑ نے ٹھکرا دیا۔ اسی طرح ایک بار قریش نے مطالبہ کیا کہ ‘‘محمدؐ’’ کو ہمارے حوالے کر دو تاکہ ہم انہیں قتل کر دیں ۔ جس پر سید بطحاء جناب ابوطالب علیہ السلام کو جلال آ گیا اور انہیں ڈانٹ کر بھگا دیا۔

محسن اسلام حضرت ابوطالب علیہ السلام نے ہر محاذ پر تحفظ رسالت کے لئے دشمنوں کے سامنے آہنی دیوار بن گئے۔ بعثت کے چھٹے برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے چچا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ علیہ السلام نے بھی اعلان اسلام کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی جناب ابوطالب علیہ السلام کی طرح اسلام اور رسول اسلامؐ کی مکمل حمایت و حفاظت کا اظہار کر دیا جس سے دشمن کے خیموں میں ہلچل مچ گئی۔ اسلام کی نہ رکنے والی ترقی کو دیکھتے ہوئے کفار و مشرکین ‘‘دارالندوہ’’ میں جمع ہوئے اور وہاں ایک معاہدہ طے پایا جس پر مطعم بن عدی کے سوا سارے قریش نے دستخط کر کے خانہ کعبہ کے اندر لٹکایا اور شدت سے اسے نافذ کرایا۔ جس کے چند نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
محمدؐ کے حامیوں کے ساتھ ہر قسم کے لین دین پر پابندی ہوگی۔
ان کے ساتھ تعلق اور معاشرت سختی کے ساتھ ممنوع ہوگی۔
ہر قسم کا ازدواجی رشتہ اور ہر قسم کا پیوند، منع ہے۔
تمام تر واقعات میں محمدؐ کے مخالفین کی حمایت کی جائے گی۔
ایسےخطرناک موقع پر حضرت ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکے حامیوں کو لے کر شعب ابوطالبؑ میں چلے گئے۔ جہاں تین سال تک اللہ والوں نے انتہائی پر مشقت زندگی بسر کی۔حتیٰ فاقے تک کئے ، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے درختوں کے پتّے تک چبائے۔ رات کی تاریکی میں جب شعب ابوطالب میں بھوک و پیاس سے ٹرپتے کمسن بچے گریہ کرتے تو انکی آواز قریش کی کانوں سے ٹکراتی جس سے وہ سو نہیں سکتے تھے لیکن اس کے باوجود ان سنگ دلوں نے نہ کوئی رحم کیا اور نہ ہی مروت سے کام لیا۔تین سال بعد خود قریش کے لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ آخر کب تک یہ ظلم جاری رہے گا ۔
شعب ابوطالبؑ میں جناب ابوطالبؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے ان کے بستر پر اپنے فرزند مولا علی علیہ السلام کو لٹاتے تا کہ اگر دشمن اچانک حملہ کر دے تو اللہ کے نبیؐ بچ جائیں اور خود کا بیٹا شہید ہو جائے۔
ایک دن مدینۃ العلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو معاہدہ قریس نے لکھا تھا اسے دیمک چاٹ گئی سواے نام خدا کے اس پر کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی کامل الایمان حضرت ابوطالب علیہ السلام شعب سے نکل کر قریش کے پاس آئے اور فرمایا: میرے بھتیجے محمد ؐ نے کہا ہے کہ سوائے نام خدا کے معاہدے کی پوری تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے۔ اگر انہوں نے سچ کہا ہے تو یہ معاہدہ ختم کرو اور ہمیں ہمارے گھروں میں واپس آنے دو اور اگر وہ تحریر سالم ہو گی جب کہ وہ ختم ہو چکی ہے تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا۔ قریش جب اس تحریر کے پاس گئے تو کیا دیکھا کہ سوائے نام خدا کے پوری تحریر دیمک چاٹ گئی ہے۔ جناب ابوطالب علیہ السلام نے جاکر شعب ابوطالبؑ میں اللہ والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت کی خبر اور محاصرے کے ختم ہونے کی خوش خبری دی۔

حضرت ابوطالب علیہ السلام اللہ والوں کو لے کر شعب ابوطالبؑ سے واپس آ گئے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ مصائب و مشکلات نے آپؑ کو کافی کمزور کر دیا تھا اور 26؍ رجب المرجب سن 10 بعثت کو آپؑ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ عاش سعیدا و مات سعیدا
لیکن افسوس صد افسوس زمانے کی ستم ظریفی اور عالم اسلام کی احسان فراموشی کہ جس ذات نے ہر محاذ پر اسلام کی حمایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہر موقع پر حفاظت و حمایت کی ۔نہ صرف خود بلکہ اپنی اولاد کو بھی اسی فداکاری اور قربانی کا حکم دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ اولاد ابوطالبؑ نے ہی اپنی جان قربان کر کے اسلام کی تبلیغ و تحفظ کیا کہ اگر ابوطالب ؑ اور انکی اولاد کی قربانیاں نہ ہوتیں تو آج اسلام باقی نہ رہتا۔ لیکن افسوس بعض بصارت و بصیرت سے محروم اس کامل الایمان کے ایمان پر شک کرتے ہیں ۔ میرا ان تمام منکر ان ایمان سے سوال ہے۔ بعثت سے قبل ہی جب عیسائی راہب نے حضورؐ کے رسالت کی پیشنگوئی کر دی تھی تو آپؑ نے حضورؐ کی کیوں حفاظت کی؟ دعوت ذوالعشیرہ میں جناب ابوطالبؑ نے کیوں ابوجہل کو ڈانٹا اور حضورؐ سے فرمایا:‘‘میرے سید و سردار! آپؐ کو جو بیان کرنا ہو بیان کریں’’؟ جب آپؑ کے فرزند مولا علی علیہ السلام نے حمایت کا وعدہ کیا تو انہیں کیوں منع نہیں کیا؟ جب کفار نے آپؑ سے حضورؐ کو ان کے حوالے کرنے کو کہا تو کیوں ان کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور حضورؐ کو ان کے حوالے نہیں کیا؟ جب قریش نے مکمل بائکاٹ کیا تو آپؑ کیوں رسول اللہ اور ان کے حامیوں کی جان کی حفاظت کے لئے ان کو شعب ابوطالبؑ میں لے گئے؟ اور وہاں کیوں حضورؐ کی حفاظت کے لئے مسلسل اپنے فرزند مولا علیؑ کو حضورؐ کے بستر پر لٹاتے رہے؟ جب حضورؑ نے فرمایا کہ قریش کے معاہدے کی تحریر دیمک نے چاٹ لی ہے تو آپؑ کیوں اتنے یقین کے ساتھ قریش کے پاس گئے اور پھر کیوں اللہ والوں کو شعب ابوطالب ؑ کے محاصرہ سے نجات دلائی؟

اگر کوئی یہ کہے کہ بہرحال جناب ابوطالب علیہ السلام حضورؐ کے چچا تھے تو ابولہب بھی تو چچا ہی تھا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جناب ابن عباس سے روایت ہے کہ آپؑ نے آخری وقت میں کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ جب کہ اس وقت جناب ابن عباس کی عمر صرف تین سال تھی تو وہ ذرا غور کریں کہ انہیں ابن عباس سے اور بہت سی روایتیں منقول ہیں جیسے وہ اکثر
يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ
کہہ کر گریہ فرماتے تھے اس سلسلہ میں کیا خیال ہے؟

خدا ہمیں اپنی ، اپنے رسول ؐ ، اپنے اولیاء اور اپنے خاص بندوں کی معرفت عطا فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .